سعودی عرب میں تبدیلی آ گئی ہے، پہلی بار خاتون نیوز اینکر

میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں مذھبی اور سیاسی رہنماؤں کو اسلام کی متضاد تشریح اور اپنے بیانات بدلتے دیکھا ہے۔ ایک مذھبی گروہ جس نے ٹی وی توڑنے کی تحریک چلائ ہوئ تھی اور وہ فوٹو کو حرام سمجھتا تھا موجودہ الیکشن میں میڈیا کا بھرپور استعمال کرتا ہے اور سب کچھ حلال کرلیا ہے ۔ اور ایک ملک جہاں عورت کا چہرہ دیکھنے کا تصور نہ تھا وہاں سینما گھر کھل جاتے ہیں۔
حیران ہوں کے پچھلی 14 صدیوں میں اپنے مفاد کے لیۓ اسلام کی کتنی تشریحیں کی گئ ہوں گی ؟
کیا کوئ تصور کرسکتا ہے کہ اسلامی دنیا میں چارسو سال تک پرنٹنگ پریسس حرام تصور کیا جاتا رہا ہے اور اسلامی دنیا میں اس پر مکمل پابندی تھی۔
کیا کوئ تصور کرسکتا ہے کہ شاہ ولی اللہ پر قرآن کا ترجمہ کرنے پر کفر کے فتوے لگتے رہے۔
کیا کوئ تصور کرسکتا ہے کہ کسی وقت میں ریڈیو ‘ سپیکر کا استعمال حرام تصور کیا جاتا رہا ہے ۔
کیا کوئ تصور کرسکتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک سائنس اور دنیاوی تعلیم کو حرام قرار دیا جاتا رہا ہے

حضوﷺ کے دور میں کپڑا نایاب تھا ۔ سردار یا بدشاۃ کی عورتیں چہرے کا پردہ کرتی تھیں اور اس پر فخر کیا جاتا تھا اور غلام عورتوں پر ان کی نقل کرنے کی پابندی تھی اور اگر وہ ایسا کرتی تھیں تو ان کو سزا ملتی تھی ۔ اسی لیے تو اللہ کے گھر میں عورتوں پر چہرہ ڈھانپنا منع ہے ۔ کیانکہ اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ اسلام میں چہرے کے پردے کی پابندی نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے اللہ کے گھر میں اس کا حکم ہوتا

https://www.bbc.com/urdu/world-45637978

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم

ہم ایک ہیں، آج سارا نیوزی لینڈ غمزدہ ہے، جیسنڈا

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا مثالی یکجہتی کا اظہار،اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہم ایک ہیں،آج سارا نیوزی لینڈ غمزدہ ہے،دوران خطاب مسلمانوں کے ایک جسم کی مانند ہونے کی حدیث بھی بیان کی،بعد میں خواتین سے گلے بھی ملیں

Posted by Geo News Urdu on Friday, March 22, 2019

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا مثالی یکجہتی کا اظہار،اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ہم ایک ہیں،آج سارا نیوزی لینڈ غمزدہ ہے،دوران خطاب مسلمانوں کے ایک جسم کی مانند ہونے کی حدیث بھی بیان کی،بعد میں خواتین سے گلے بھی ملیں

خلافت عثمانیہ کے دور حکومت میں خلیفہ سلیم

خلافت عثمانیہ کے دور حکومت میں خلیفہ سلیم ١ نے1515میں پرنٹنگ پریس کے استعمال پر موت کی سزا کا حکم جاری کیا پرنٹنگ پریس پر پابندی تقریبا تین صدیوں کسی نہ کسی شکل میں نافذ رہی ۔ اس پابندی نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے زوال کی ایسی بنیاد رکھ دی جس سے مسلمان آج تک نہ نکل سکے ہیں ۔ کشمیر ہو یا فلسطین کےمسلمان اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں
یاد رہے کاغذ چین والوں نے ایجاد کیا تھا اور اس کا استعمال مسلمانوں نے شروع کیا تھا یورپ نے مسلمانوں سے ہی کاغذ کا استعمال سیکھا تھا اور پھر پرنٹنگ پریس نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا تھا لیکن اس وقت کے مسلمانوں نے کھلے دماغ سے فیصلہ نہ کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ کہیں ہم بھی نفرت اور تقسیم کا پرچار کرکےغلطی تو نہیں کررہے ؟ جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا

(اصل ماخذ سے کچھ تحریر کا ترجمہ)

کس نے کاغذ ایجاد کیا اور مسلمانوں نے اس کو کیسےسیکھا؟

چینیوں نے کاغذ ایجاد کیا لیکن عام طور پر اس کا استعمال نہیں کیا گیا اور انہوں نےاسے ایک آرٹیکل آرٹ / ٹیکنالوجی کے طور پر رکھا کہ صرف چند لوگوں کو سیکھنے کی اجازت ملی ہے. چینی کاغذ سازوں کو مسلمانوں کے ساتھ ایک معمولی جھگڑا میں گرفتار کیا گیا تھا اور سزا کے بجائے خلافت (ال منصور) نے پوچھا کہ وہ مسلمانوں کو کاغذ بنانے کے طریقے سکھائیں. انہوں نے ایسا کیا اور کاغذ سازی کی تکنیکوں کو اسلامی ریاست میں فروغ اور بہتر بنایا.

کاغذ کا استعمال

کاغذ کی شیٹیں بنانے اور انہیں کتابیں بنانے کا طریقہ مسلمانوں نے شروع کیا تھا. تعلیم پھیلنےلگی اور مسلمان سائنس اور فلسفہ میں رہنما بن گئے اور بہت سے قدیم یونانی / رومن نسخے وغیرہ کو محفوظ کیا اور ان پر توسیع کیا. کاغذ سازی کی مہارت اسلامی سپین اور سسلی پہنچ گئی. سپین پر دوبارہ قبضہ ہونے کے اور مسلمانوں کے جانے کے بعد ، یورپیوں کی طرف سے کاغذ سازی کی مہارت حاصل کی گئی، جو ریشوں کو پونڈ کرنے کے لئے پانی کی ملوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کو بہتر بنانے میں کامیاب رہی

.یورپ نے کیا کیا؟

اٹلی ٹھیک کاغذ کی پیداوار کے لئے ایک مرکز بن گیا (جو کہ واٹر مارک تھا) اور وہ اسلامی سلطنت کو برآمد کرتے تھے. ہم بتا سکتے ہیں کہ کاغذ کہاں سے آیا ہے کیونکہ واٹر مارک اس بات کی معلومات دیتے ہیں.اس وقت کے قرآن مجید موجود ہیں جو 14 ویں صدی میں بنائے گئے ہیں اور ہر صفحے میں ایک مصری واٹر مارک کا نشان پایا گیا ہے کیونکہ اطالوی کاغذ اسے بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا. 1400 کے جوہنس گوتن برگ نے جدید پرنٹنگ پریس کو تخلیق کیا (ابتدائی چینی پرنٹنگ پریس ڈیزائن میں بہتر بنانے) جس نے یورپ میں ادب کی تیز رفتار اضافہ اور تقسیم اور تعلیم کی سطح کو بڑھا دیا.

خلافت نے کس طرح ردعمل دیا

خلافت نے پرنٹ پریس کو حرام قرار دینے کا اعلان کیا اور اس پر پابندی لگا دی اور کتابوں کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی. 1515 ء میں سلطان سلیم نے پہلے ایک فرمان جاری کیا کہ عثمانی سلطنت میں جو کوئ بھی پرنٹنگ پریس کے ساتھ پکڑا گیا اسے جان سے مار دیا جائے گا . عثماني سلطنت میں اسپین (غرناطہ کے سقوط کے بعد) سے یہودیوں کی آمد ہوئ تھی اور یہودیوں کو پرنٹ پریس کی اجازت دی گئی لیکن مسلمانوں کو انہیں استعمال کرنے یا کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی. عثماني سلطنت میں یہودیوں اور عیسائی سب سے زیادہ تعلیم یافتہتھے ڈاکٹر وغیرہ بھی عام طور پر یہودیوں یا عیسائیوں میں سے کچھ تھے. یورپ میں سب سے پہلےغیر مسلموں کے لئے پہلا پرنٹ قرآن بنایا گیا تھا.

آخر کار خلیفہ نے اجازت دے دی

عثمانی سلطنت میں پرنٹنگ پریس کے لئےکچھ علما کی طرف سےدرخواست کی گئی تھی. ہھنگری سے ایک نومسلم نے پرنٹنگ پریس پر ایک ھاتھ سے ایک کتاب لکھی اور مفتی اعظم کو دی اور پرنٹنگ پریس کے حق میں دلائل دیے ۔ مفتی اعظم نے اس سے اتفاق کیا لیکن 3 شرط کے ساتھ: 1) عربی میں کچھ نہیں لکھا جائے گا 2) اسلام کے متعلق کچھ نہیں لکھا جائے گا 3) صرف خلافت سے منظورشدہ کتابیں چھاپی جائیں گی .
1726 میں، پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے 300 سال بعد (سیکولر کتابوں کو چھاپنے کی اجازت دی گئ جو کہ عربی میں نہ تھیں اور نہ ہی اسلام کے متعلق تھیں ) ترکی زبان میں پرنٹنگ پریس کوعثمانی سلطنت میں متعارف کرایا گیا

http://www.thefridaytimes.com/tft/origins-of-islams-crises/…

http://www.thefridaytimes.com/tft/origins-of-islams-crises/

مارے علما نے حق مہر کی کم ازکم مقدار

ہمارے علما نے حق مہر کی کم ازکم مقدار دس درہم یعنی ساڑھے اکتیس ماشہ چاندی ہے مقرر کی ہے جو کہ تقریبا ٢١ یا ٢٢ سو روپے بنتی ہے اور فطرانہ کی رقم صرف سو روپے مقرر کی ہے ۔ اچھا میں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور کے بارے میں پڑھا تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے مسائل کے لیے قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ انسانی فہم و فراست کو بھی ترجیح دی لیکن ہمارے علما انسانی فہم و عقل کے استعما ل کے خلاف نظر آتے ہیں اور ہر نئ ایچاد کو پہلے حرام قرار دے دیتے ہیں اور بعد میں حلال قرار دے دیتے ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ ماضی میں تین صدیوں تک پرنٹنگ پریس اسلامی دنیا میں حرام رہا لیکن آجکل یہ حلال ہے.

https://www.facebook.com/ammantehrik/posts/677521322667712?hc_location=ufi

اس وقت ایک دینار کا وزن تقریبا سوا چار گرام تھا اور ایک درھم کا وزن تقریبا تین گرام تھا تو سونے اور چاندی میں ایک اور سات کا تناسب تھا یعنی ١٠ گرام سونے کے مقابلے میں تقریبا ستر گرام چاندی ہوتی تھی اور آجکل یہ تناسب بہت زیادہ ہے ۔ اب ١٠ گرام سونے کی قیمت میں تقریبا آٹھ سو پچاس گرام چاندی مل جائے گی ۔ حق مہر میں اگر چاندی سستی ہوگئ ہے تو ہمیں سونے کی قیمت کو نظر میں رکھنا چاہیے اوراپنے زمانے کی ضرورت کے مطابق اور سونے کی قیمت کے حساب سے کم از کم حق مہر مقرر کرنا چاہیے۔ ٢١ یا ٢٢ سو روپے کی آجکل کیا اوقات ہے اتنی رقم میں تو ایک وقت کا کھانا نہیں کھایا جاسکتا ہے

اچھا کچھ لوگ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ یہ تو کم از کم مقدار ہے اور اپنی استطاعت کے مطابق آپ زیادہ ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن جس طرح ہمارے معاشرے میں طاقت ور کمزوروں پر من مانی کرتے ہیں اور غریب کی کوئ نہیں سنتا تو لازمی طور پر ایسا طبقہ غریبوں کا مزید استحصال کرے گا اور انہیں اس کم از کم پر ہی راضی رکھے گا ۔

شیا کی قیمتیں اور معشیت تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس حدیث کے مطابق اونٹ کی قیمتوں میں اضافے پر دیت کی رقم تبدیل کردی
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار ، یا آٹھ ہزار درہم تھی ، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی ، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا ، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا ، اور فرمایا : سنو ، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار ، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار ( درہم ) دیت ٹھہرائی ، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں ، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں ، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی ، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی ، ان کی دیت میں ( مسلمانوں کی دیت کی طرح ) اضافہ نہیں کیا ۔
(سنن ابن ماجہ Book 21, Hadith 2732)

اب فطرانے کی بات کرتے ہیں اس وقت کپڑا اور گندم کا باریک پسا ہو آٹا انتہائ نایاب چیز تھی ۔ خود حضور ﷺ نے ساری زندگی باریک پسے ہوئے آٹے کو روٹی نہ کھا ئ ۔ اس وقت اگر قیمتوں کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خوراک میں آٹا سب سے مہنگا تھا اور کھجور سب سے سستی تھی لیکن ہیاں پاکستان میں تو آٹا سب سے سستا ہے اور کھجور مہنگی ہے اور چار کلو کھجور کے حساب سے فطرانہ سولہ سو روپے بنتا ہے۔ تو ہمارے علما کو دیگر ممالک کی طرح اوسط نکالنی چاہیے اور عقل کو استعمال کرنا چاہیے فطرانہ کی مقدار دو کلو گندم مقرر رکھنا کچھ غیر حقیقی نظر آتا ہے اور اس سے غریب جو فطرانہ کے حقدار ہیں انکی حق تلفی ہوتی نظر آتی ہے
فطرانہ کے متعلق احادیث کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زیادہ تر جو اور کھجور کا ہی فطرانہ دیا جاتا تھا اور گندم کا حکم نہ تھا کیونکہ اس وقت یہ نایاب تھی اور بعد میں حضرت معاویہ کے دور حکومت میں جب گندم وافر مقدار میں پائ جانے لگی تو لوگوں نے قیمت کے حساب سے کھجور سے آدھا وزن گندم دینا شروع کردی ۔ ذیل میں اس بابت صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی احادیث پیش ہیں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع ”زبیب“ ( خشک انگور یا خشک انجیر ) نکالتے تھے ۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے ۔ Sahih al-Bukhari Book 24, Hadith 109

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی زکوٰۃ فطر دینے کا حکم فرمایا تھا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اسی کے برابر دو مد ( آدھا صاع ) گیہوں کر لیا تھا
ahih al-Bukhari Book 24, Hadith 108
Sahih Muslim Book 12, Hadith 18

اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ ہمارا طرز زندگی بلکل بدل چکا ہے اور جدید سائنس کی بدولت ہماری زندگی میں بہت تبدیلی آچکی ہے اور ہم ایسی ایجادات استعمال کرتے جن کا پہلے تصور نہ تھا تو کیا ہم کیا ہم احادیث کو آجکل نئ چیزوں پر اطلاق کرسکتے ہیں تو اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حدیث ہماری رہنمائ کرتی ہے
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں ۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی ۔

اس حدیث کی محدثین نے یہی تشریح کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی فریق کی ملامت نہ کرنے کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کا عمل قابل قبول ہے اگر کوئ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے بجائے ان کے مقصد کی پیروی کرتا ہے تو وہ بھی قابل قبول ہے اور نئے مسائل میں حضرت عمر کا رویہ اسلام کے مقاصد کا حصول ہے
اسلام انسانی مساوات اور انصاف کو فوقیت دیتا ہے اس بات کو انسانی عقل و فہم سے پرکھیں تو مندرجہ ذیل باتیں خلاف اسلام نظر آتی ہیں اور ان پر پابندی لگی چاہیے
١۔ طبقاتی نظام جس میں امیر اورطاقت ور لوگوں کو ہر طرح سہولت دی جاتی ہے اور غریب کا بچہ نہ تعلیم حاصل کرسکتا ہے اور نہ اسے انصاف ملتا ہے
٢۔ بڑی گاڑیوں کا استعمال اورایرکنڈیشنڈ کا استعمال کیونکہ یہ ماحول میں ٹمپریچر بڑھا دیتا ہے اور غریب کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور ماحول بھی خراب ہوتا ہے

میرے علم میں نہیں کہ کسی عالم نے طبقاتی نظام اور ایر کنڈیشنڈ کے استعمال پر سوچ و بچار بھی کی ہو ۔ اسکی بنیادی وجہ یہی کہ وہ دین میں بنیادی طور پر انسانی عقل و فہم کے استعمال کے خلاف ہیں جہاں کوئ چارہ نہیں ہوتا وہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہیں لیکن اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں
مثال کے طور پر قرآن میں دشمنوں کے لیے اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے لیکن ہمارے عالم اس کا اطلاق آجکل کی ضرورت کے مطابق جنگی جہازوں اور ٹینکوں پر کریں گے اور یہاں عقل کا استعمال جائز ہوگا
مثال کے طور پر نماز کے اوقات دن رات سورج کی پوزیشن اور رات پر مقرر کیے جاتے ہیں لیکن ہم اس کا اطلاق گھڑیوں پر کرتے ہیں اور سورج کو دیکھنے کی کبھی زحمت نہیں کرتے اور یہاں بھی عقل کا استعمال کرتے ہیں
مثال کے طور پر اذان اونچی آواز میں کہنے کی مثال ہے اور ہم اس کا اطلاق سپیکروں پر کرتے ہیں

مثال کے طور پر عمرہ اور حج کے دوران خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ہے اور ہم اس کا اطلاق علیحدہ سے بنائ گئ منزلوں پر سفر کرکے کرتے ہیں اور اسی طرح سعی کے دوران صفا پہاڑی کے اوپر کھڑے ہوکر دعا مانگنے کی حدیث ہے(Sahih Muslim : Book 15, Hadith 159) لیکن اب کوئ پہاڑی پر جا ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے ارد گرد جنگلا لگا ہوا ہے اور وہاں بھی عقل کا استعال کیا جاتا ہے اور اس کے قریب کھڑے ہوکر دعا مانگی جاتی ہے

ہم نہ جانتے ہوئے بھی کئ جگہ انسانی عقل و فراست کا استعمال کرتے ہیں

غزوہ خیبر کی فتح کے بعد جو زمین فتح ہوئ تھی وہ مجاہدین میں تقسیم ہوئ تھی لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دور میں عراق کی زمین فتح ہوئ تو اکثریت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی سے اسی طرح زمین تقسیم کرنے کا کہا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے امت کی بہتری کے لیے مجاہدین میں زمین تقسیم نہ کی حالانکہ صحابہ کی اکثریت تقسیم کے حق میں تھی اور چند صحابہ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے ساتھ تھے اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اور سنت کے ساتھ ساتھ ہمیں عقل و فہم کو بھی استعمال کرنا چاہیے اور اپنے زمانے کی ضروریات کو بھی دیکھنا چاہیے ۔ بلکل اسی طرح جس طرح ہم گھوڑے اور تیراندازی کی حدیث کو آجکل کے جنگی تیاری پر لاگو کرتے ہیں اسی طرح دیگر معاملات میں بھی عقل و فہم اور زمانے کی ضروریا ت کو مدنظر رکھنا چاہیے ورنہ دین اور دنیا دو علیحد ہ علیحدہ کناروں پر کھڑے نظر آئیں گے جس طرح آجکل ہورہا ہے کہ ھمیں مخصوص مواقع پر ہی اسلام کی ضرورت پڑتی ہے۔

https://jang.com.pk/news/653662-nikkah-rules

میں چاہتا ہوں کہ ہم مشترکہ طور پر

  • میں چاہتا ہوں کہ ہم مشترکہ طور پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ سی سیکشن(آپریشن) کے نام پر ہونے والی ظلم و زیادتی پر کا م کریں
  • ١۔ پہلی بات صحت کی نجکاری یا پرائویٹ ادارے کے طور پر کام کرنے کی اجازت دینا غلط ہے یا تو اس کو بہتر مانیٹر کیا جائے یا اسے پرائویٹ نہ کیا جائے ۔ سرمایہ دار اور ڈاکٹر اسے کاروبار کے طور پر لیتا ہے اور زچہ بچہ کا استحصال کرتا ہے ۔ عورتوں کو ضرورت نہ ہونے کے باوجود سی سیکشن کی طرف راغب کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے وقت بھی بچتا ہے اور پیسہ بھی اچھا ملتا ہے ۔ ڈاکٹر اور ہسپتال دونوں منافع میں رہتے ہیں ۔ سی سیکشن کے بعد زچہ کو آئ سی یو میں رکھا جاتا ہے اور بچہ کو نرسری میں رکھ کر دونوں فریق منافع میں رہتے ہیں ۔زچہ سی سیکشن کے بعد ساری زندگی کے لیے مفلوج ہوجاتی ہے ۔ اور مشکل کام نہیں کرسکتی اور بچہ خون کی کمی اور دیگر بیماریوں کا شکار رہتا ہے
  • ٢۔ عورتوں کو حمل ہونے کے بعد ڈاکٹر ورزش سے بچاتے ہیں اور انہیں میڈیسن پر لگادیتے ہیں ۔ عورتوں کا سہل پسند ھونا اور یہ تصور کہ حمل pregnency ھو جانے کے بعد کام نہیں کرنا سارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔۔۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجاٸے ۔۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ھے ۔۔۔۔فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجاٸے اگر مخصوص ورزش خصوصا اخری مہینوں میں کی جاٸے یا گھر کے کام کاج کیے جاٸیں ۔۔جیسے جاڑو دینا ۔۔۔ ڈسٹنگ کرنا ۔۔۔اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گی جس سے حرارت پیدا ھوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔۔۔۔
  • خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگاٸیں گے تو یہ لوہا iron ھونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہاٸی زیادہ سخت اور Hard کرے گا کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ھے جس سے راستہ کھلنے کے بجاٸے اور زیادہ تنگ ھو گا ۔۔۔۔اس کی جگہ اگر حمل کے شروع میں ۔کالے چنے مربہ ھڑڑ مربہ املہ مربہ بہی ۔سیب پالک ساگ ۔کلیجی۔۔۔دودھ انڈا ۔۔شھد گھی ۔۔دودھ منقی۔سیب۔اڑو ۔۔لونگ دارچینی بادام۔۔زعفران کا استعال حسب ضرورت اور حمل کے آخری دنوں میں دودھ اور کیلشیم والی تمام غذاوں ٹینڈے، کدو، پیٹھا، توری، اوری، گھیا توری، مولی، گاجر، دیسی کھیرا، کیلا اور میٹھا سیب کا استعمال کسی ماھر علاج بالغذا کی نگرانی میں کیا جاٸے گا تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگا اور جسم کے مسکولر ثشوز سخت ھونے کے بجاٸے طاقتور اور نرم ھو ں گٸے.۔۔جب دن پورے ھو جائیں تو رات کو ایک گلاس دودھ میں کاسٹر آئل کے دو چمچہ دیں ان شا اللہ فوری کرم ھو گا ولادت با آسانی اور نارمل ہو جائے گی
  • ٣۔ یورپ میں ڈیلیوری کے وقت اسکا شوہر ساتھ ہوتا ہے اور بچہ کو نارمل پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے لیکن یہاں زچہ کے ساتھ کسی کو جانے کی اجازت نہ ہوتی ہے اور بغیر ضرورت کے زچہ کو بے ہوش کیا جاتا ہے تاکہ کوتاہی یا غلطی ہونے پر کو ئ ثبوت نہ ہو ۔ اور اپنی من مرضی کی جاتی ہے ۔ کسی نقصان کی صورت میں مریض کے لواحقین کے پاس کو ئ شکایت کا فورم نہیں بچتا۔ کیونکی ڈاکٹر اور ہسپتال کا مفاد آپس میں جڑا ہوتا ہے اور مریض اکیلا ہوتا ہے اور ان کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتا ہے
  • ڈاکٹر کا بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر اور بچوں کے ڈاکٹر کے ساتھ پہلے سے کاروباری اگریمنٹ ہوتا ہے ۔ اور مریض یا لواحقین کو بچے کے علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر منتخب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی
  • ٥۔ یورپ میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے اسے صاف کرنے سے پہلے ماں کے اوپر لٹادیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک صدمے سے گزرا ہے اور اسے ماں کی جسم کی لمس اور خوشبو سے تقویت ملتی ہےاور بچہ کو اپنی ماں کے جسم سے حرارت ملتی ہے ۔ لیکن یہاں کمرے میں ڈاکٹر نے اپنی سہولت کے لیے اے سی لگایا ہوتا ہے اور بچے کو ماں سے جدا کرلیا جاتا ہے اور اسے نرسری میں داخل کردیا جاتا ہے جہاں اس کا علاج کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے اور انٹی بایہٹک لگاتے ہیں جس سے بچہ قوت مدافعت اور خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہمیشہ جلدی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جدید ریسیرچ یہ بتاتی ہے کہ ماں اور بچہ میں آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے بچے اور ماں کے درمیان لمس سےoxytocin ھارمون اوراور خوشبو سے Pheromones کا تبادلہ ہوتا ہے جس سے بچہ کی قوت مدافعت بڑھتی ہے اور بچہ بیماریو ں کے خلاف زیادہ قوت مدافعت سے مقابلہ کرتا ہے اور بیمار نہیں ہوتا اس لیے کبھی بھی بچے کو نرسری کے نام پر ماں سے جدا نہیں ہونا چاہیے اور آئ سی یو میں بھی بچے کا ساتھ ماں کا ہونا ضروری ہونا چاہیے.
  • A close attachment can prevent diseases, boost immunity, and enhance IQ in your baby, says Deepak Chopra, M.D., the endocrinologist turned mind-body — medicine guru, Parenting contributing editor, and coauthor of Magical Beginnings, Enchanted Lives: A Holistic Guide to Pregnancy and Childbirth. Those hugs and kisses are a force of nature more powerful than ever thought, says Dr. Chopra. Mother-child bonding has evolved to become a complex physiological process that enlists not just our hearts, but our brains, hormones, nerves, and almost every part of our bodies. https://www.parenting.com/…/the-new-science-of-mother-baby…/
    https://inforefuge.com/science-of-smell-mother-infant-bondi…

میں چاہتا ہوں کہ ہم مشترکہ طور پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ سی سیکشن(آپریشن) کے نام پر ہونے والی ظلم و زیادتی پر کا م کریں

میں چاہتا ہوں کہ ہم مشترکہ طور پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ سی سیکشن(آپریشن) کے نام پر ہونے والی ظلم و زیادتی پر کا م کریں

١۔ پہلی بات صحت کی نجکاری یا پرائویٹ ادارے کے طور پر کام کرنے کی اجازت دینا غلط ہے یا تو اس کو بہتر مانیٹر کیا جائے یا اسے پرائویٹ نہ کیا جائے ۔ سرمایہ دار اور ڈاکٹر اسے کاروبار کے طور پر لیتا ہے اور زچہ بچہ کا استحصال کرتا ہے ۔ عورتوں کو ضرورت نہ ہونے کے باوجود سی سیکشن کی طرف راغب کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے وقت بھی بچتا ہے اور پیسہ بھی اچھا ملتا ہے ۔ ڈاکٹر اور ہسپتال دونوں منافع میں رہتے ہیں ۔ سی سیکشن کے بعد زچہ کو آئ سی یو میں رکھا جاتا ہے اور بچہ کو نرسری میں رکھ کر دونوں فریق منافع میں رہتے ہیں ۔زچہ سی سیکشن کے بعد ساری زندگی کے لیے مفلوج ہوجاتی ہے ۔ اور مشکل کام نہیں کرسکتی اور بچہ خون کی کمی اور دیگر بیماریوں کا شکار رہتا ہے

٢۔ عورتوں کو حمل ہونے کے بعد ڈاکٹر ورزش سے بچاتے ہیں اور انہیں میڈیسن پر لگادیتے ہیں ۔ عورتوں کا سہل پسند ھونا اور یہ تصور کہ حمل pregnency ھو جانے کے بعد کام نہیں کرنا سارا دن فارغ بیٹھے رہنا۔۔۔مسکولر ٹشوز اور خصوصا اووری کے مسلز کو نرم اور flexible بنانے کے بجاٸے ۔۔۔stiff اور سخت بنا دیتا ھے ۔۔۔۔فارغ سارا دن لیٹے رہنے کی بجاٸے اگر مخصوص ورزش خصوصا اخری مہینوں میں کی جاٸے یا گھر کے کام کاج کیے جاٸیں ۔۔جیسے جاڑو دینا ۔۔۔ ڈسٹنگ کرنا ۔۔۔اس سے اووری کے مسلز کو حرکت ملے گی جس سے حرارت پیدا ھوگی جو مسلز کو نرم کرے گی۔۔۔۔

خوراک میں جب ہم فولک ایسڈ یا venofer کے انجکشن لگاٸیں گے تو یہ لوہا iron ھونے کی وجہ سے جسم کے مسلز کو انتہاٸی زیادہ سخت اور Hard کرے گا کیونکہ یہ مسلز کی خوراک ھے جس سے راستہ کھلنے کے بجاٸے اور زیادہ تنگ ھو گا ۔۔۔۔اس کی جگہ اگر حمل کے شروع میں ۔کالے چنے مربہ ھڑڑ مربہ املہ مربہ بہی ۔سیب پالک ساگ ۔کلیجی۔۔۔دودھ انڈا ۔۔شھد گھی ۔۔دودھ منقی۔سیب۔اڑو ۔۔لونگ دارچینی بادام۔۔زعفران کا استعال حسب ضرورت اور حمل کے آخری دنوں میں دودھ اور کیلشیم والی تمام غذاوں ٹینڈے، کدو، پیٹھا، توری، اوری، گھیا توری، مولی، گاجر، دیسی کھیرا، کیلا اور میٹھا سیب کا استعمال کسی ماھر علاج بالغذا کی نگرانی میں کیا جاٸے گا تو اس سے جسم کو قدرتی فولک ایسڈ اور خون بھی وافر مقدار میں ملےگا اور جسم کے مسکولر ثشوز سخت ھونے کے بجاٸے طاقتور اور نرم ھو ں گٸے.۔۔جب دن پورے ھو جائیں تو رات کو ایک گلاس دودھ میں کاسٹر آئل کے دو چمچہ دیں ان شا اللہ فوری کرم ھو گا ولادت با آسانی اور نارمل ہو جائے گی

٣۔ یورپ میں ڈیلیوری کے وقت اسکا شوہر ساتھ ہوتا ہے اور بچہ کو نارمل پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے لیکن یہاں زچہ کے ساتھ کسی کو جانے کی اجازت نہ ہوتی ہے اور بغیر ضرورت کے زچہ کو بے ہوش کیا جاتا ہے تاکہ کوتاہی یا غلطی ہونے پر کو ئ ثبوت نہ ہو ۔ اور اپنی من مرضی کی جاتی ہے ۔ کسی نقصان کی صورت میں مریض کے لواحقین کے پاس کو ئ شکایت کا فورم نہیں بچتا۔ کیونکی ڈاکٹر اور ہسپتال کا مفاد آپس میں جڑا ہوتا ہے اور مریض اکیلا ہوتا ہے اور ان کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتا ہے

ڈاکٹر کا بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر اور بچوں کے ڈاکٹر کے ساتھ پہلے سے کاروباری اگریمنٹ ہوتا ہے ۔ اور مریض یا لواحقین کو بچے کے علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر منتخب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی

٥۔ یورپ میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے اسے صاف کرنے سے پہلے ماں کے اوپر لٹادیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک صدمے سے گزرا ہے اور اسے ماں کی جسم کی لمس اور خوشبو سے تقویت ملتی ہےاور بچہ کو اپنی ماں کے جسم سے حرارت ملتی ہے ۔ لیکن یہاں کمرے میں ڈاکٹر نے اپنی سہولت کے لیے اے سی لگایا ہوتا ہے اور بچے کو ماں سے جدا کرلیا جاتا ہے اور اسے نرسری میں داخل کردیا جاتا ہے جہاں اس کا علاج کے نام پر استحصال کیا جاتا ہے اور انٹی بایہٹک لگاتے ہیں جس سے بچہ قوت مدافعت اور خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہمیشہ جلدی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جدید ریسیرچ یہ بتاتی ہے کہ ماں اور بچہ میں آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے بچے اور ماں کے درمیان لمس سےoxytocin ھارمون اوراور خوشبو سے Pheromones کا تبادلہ ہوتا ہے جس سے بچہ کی قوت مدافعت بڑھتی ہے اور بچہ بیماریو ں کے خلاف زیادہ قوت مدافعت سے مقابلہ کرتا ہے اور بیمار نہیں ہوتا اس لیے کبھی بھی بچے کو نرسری کے نام پر ماں سے جدا نہیں ہونا چاہیے اور آئ سی یو میں بھی بچے کا ساتھ ماں کا ہونا ضروری ہونا چاہیے.

  • A close attachment can prevent diseases, boost immunity, and enhance IQ in your baby, says Deepak Chopra, M.D., the endocrinologist turned mind-body — medicine guru, Parenting contributing editor, and coauthor of Magical Beginnings, Enchanted Lives: A Holistic Guide to Pregnancy and Childbirth. Those hugs and kisses are a force of nature more powerful than ever thought, says Dr. Chopra. Mother-child bonding has evolved to become a complex physiological process that enlists not just our hearts, but our brains, hormones, nerves, and almost every part of our bodies. https://www.parenting.com/…/the-new-science-of-mother-baby…/
    https://inforefuge.com/science-of-smell-mother-infant-bondi…

I want us to be together on the cruelty and abuse in the name of c section (operation) in the name of c section (operation).

1 the first thing is wrong to allow to work as a health girl or private institute, either it should be better monitor or not private. Investment and doctor takes it as a business and postpartum The child uses the child. Women are sent to c section despite not needed because it also saves time and money is also good. Doctor and hospital both live in profit. After c section It is kept in the UK and the child in a nursery, both parties are in profit. After the same section, the whole life is free and does not work hard, and the child is a victim of blood and other diseases. Is

2 doctors save women from exercise after having pregnancy and plant them on medicine. Women are easy to love and imagine not working all day after having pregnancy pregnancy………………………….. And especially the reason to make uri’s problems soft and difficult makes the stiff and tough free to stay sleeping all day if special exercise especially in the last months or home work is done Listing This will make the ạwgẖwry̰’s issues that will cause the heat that will make it soft

In Food when we put the injection of acid or a person in food, this iron iron will make the body problems more difficult and hard because it is the food of the foods that will be more difficult and more tight Its place if in the beginning of pregnancy. Black chosen all ھڑڑ all. Apple spinach paf. Kills Milk Egg Sẖھd Ghee. Milk Mnqy̰. Apple. Fly. Long Cinnamon Almond. Saffron use In the last days of custom and pregnancy, all the foods with milk and calcium will be used in the monitoring of a mother treatment. So this will increase the body natural acid and blood in large amount and the body’s cooler results are very powerful and soft. When the day is complete, give two skin of the royal oil in a glass of milk in the night in sha Allah will be quick. the birth will be easy and normal

3 at the time of delivery in Europe, his husband is with him and every possible effort is made to make a child normal but here no one is allowed to go with the child, and without need, it is not allowed to go. It goes so that there is no proof of being short or mistake and is done. In Case of any loss, the patient’s families do not have a form of complaint. The interest of the doctor and the hospital will be united. Is and the patient is alone and is very weak than them

The doctor is already having business appointment with the doctor and children’s doctor. and the patient or families are not allowed to choose a doctor to treat the child.

5 when a child is born in Europe, it is given to the mother before cleaning it so that he has passed through a shock and she gets stronger by the touch and fragrance of the mother’s body, and the child is heat from his mother’s body. But here in the room the doctor has put a c for his facility and the child is separated from the mother and is brought into nursery where it is used in the name of treatment and put anti-bạy̰ہٹḵ The child is a victim of strength and lack of blood, and is always a victim of an early disease. Modern Ry̰sy̰rcẖ says that the mother and child have a deep relationship between a touch between baby and mother by touch from the touch between baby and mother. And the smell of the fragrance changes the child’s strength to help and the child compete with more strength against sick and is not sick, so never the child should be separated from the mother in the name of nursery and not sick. A child should also be with mother in kpk.

A close attachment can prevent diseases, boost immunity, and enhance IQ in your baby, says Deepak Chopra, M.D., the endocrinologist turned mind-body — medicine guru, Parenting contributing editor, and coauthor of Magical Beginnings, Enchanted Lives: A Holistic Guide to Pregnancy and Childbirth. Those hugs and kisses are a force of nature more powerful than ever thought, says Dr. Chopra. Mother-child bonding has evolved to become a complex physiological process that enlists not just our hearts, but our brains, hormones, nerves, and almost every part of our bodies. https://www.parenting.com/baby/the-new-science-of-mother-baby-bonding/
https://inforefuge.com/science-of-smell-mother-infant-bonding